زکوۃ مال کی صفائی کا نظام
✍
مفتی محمد اجوداللہ پھولپوری
نائب ناظم مدرسہ اسلامیہ عربیہ بیت العلوم سرائمیر اعظم گڈھ
اسلام ایک ایسا نظام حیات ہے جس نے انسانوں کی تمام ضروریات کا احاطہ کیا ہے انسانی زندگی کے معاملات خواہ وہ معاشی ہوں یا معاشرتی مالیاتی ہوں یا خانگی دینی ہو یا دنیاوی ہر معاملہ پر شریعت کی گہری نگاہ ہے اور ہر مشکل سے نبرد آزما ہونے کیلئے ایک مکمل پلان شریعت میں موجود ہے زکوۃ بھی شریعت کا ایسا نظام ہے جسے امت کے نادار لوگوں کیلئے صاحب نصاب پر لازم کیا گیا ہے
وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ(البقرۃ)
"اور نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دو"
تاکہ ملت کا ایک بڑا طبقہ اس سے فیض یاب ہوکر اپنی ضروریات کی تکمیل کرسکے اور معاشی تنگی سے خود کو نکال کر ایک پروقار زندگی گزار سکے زکوۃ ملت کے مالدار وں سے لیکر امت کے غریب اور نادار لوگوں تک پہونچائی جائے گی "تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِيَائِهِمْ وَتُرَدُّ عَلَى فُقَرَائِهِمْ"(بخاری ومسلم) خصوصا وہ وہ نادار جو آپ کے پڑوس میں کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں زکوۃ کو اس کے مستحقین تک پہونچانا زکوۃ دینے والے کی ذمہ داری ہے اگر زکوۃ کی رقم مستحقین تک نا پہونچ سکی تو زکوۃ کی ادائیگی ممکن نہیں زکوۃ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ زکوۃ کو نماز کے بعد اسلام کا دوسرا سب سے اہم رکن قرار دیا گیا اسی لئے قرآن کریم میں بیاسی جگہیں ایسی ہیں جہاں نماز کی فرضیت کے ساتھ زکوۃ کی اہمیت کو بیان کیا گیا ہے
فقہاء کرام کے مطابق زکوۃ کے فرض ہونے کے لیے دس شرائط ہیں :۱: مسلمان ہونا کافر پر زکوۃ فرض نہیں ۲ آزاد ہونا غلام پہ بھی زکوۃ نہیں ۳ بالغ ہونا، بچے پر زکوۃ فرض نہیں ۔ ۴: عاقل ہونا، مجنون اور دیوانے پر بھی زکوۃ فرض نہیں ۵ مکمل ملکیت کا ہونا، غیرمقبوض مال پر بھی زکوۃ فرض نہیں ۶:صاحب نصاب ہونا(۶۱ تولہ ۲گرام ۳۶۰ ملی گرام چاندی یا ساڑھے سات تولہ سونا یا اتنے پیسہ کا مالک ہونا جس میں مذکورہ چاندی یا سونا جس کی قیمت کم ہو اسے خریدا جاسکے) ۷ مال کا حاجت اصلیہ (روٹی کپڑا اورمکان وغیرہ) سے زائد ہونا ۸ اتنا مقروض نہ ہو ناکہ اگر قرض اداکیا جائے تو آدمی صاحب نصاب ہی نہ رہے ۹ مال نامی یعنی بڑھنے والا مال ہونا،جس کی قیمت بڑھتی رہتی ہو جیسے سونا چاندی غیرہ ۱۰ نصاب پر پورے سال کا گزرنا۔
زکوۃ کے صحیح ہونے کی تین شرطیں :
زکوۃ کے صحیح ہونے کے لیے علماء کرام نے تین شرطیں بتلائی ہیں ۔اگر یہ شرطیں اکٹھی پائی جائیں گی تو زکوۃ ادا ہوگی ورنہ نہیں ۔
پہلی شرط نیت کرنا: نیت کے بغیر زکوۃ ادا نہیں ہوتی،نیت دل کے ارادے کا نام ہے، زبان سے زکوۃ کہہ کردیناضروری نہیں زکاۃکی ادائیگی کے لیے رقم دیتے وقت یا رقم کو جدا کرکے رکھتے وقت نیت کرناضروری ہے اگر رقم دینے کے بعد زکاۃکی نیت کی گئی تو ایسی نیت شرعاً معتبر نہیں ، اور نہ ہی اس طرح سے زکاۃادا ہوتی ہے دوسری شرط ضرورت مندوں کو دینا جسکی تفصیل سورہ توبہ کی اس آیت میں موجود ہے
اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلۡفُقَرَآءِ وَ الۡمَسٰکِیۡنِ وَ الۡعٰمِلِیۡنَ عَلَیۡہَا وَ الۡمُؤَلَّفَۃِ قُلُوۡبُہُمۡ وَ فِی الرِّقَابِ وَ الۡغٰرِمِیۡنَ وَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَ ابۡنِ السَّبِیۡلِ ؕ فَرِیۡضَۃً مِّنَ اللّٰہِ ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌ حَکِیۡمٌ ﴿ توبہ۶۰}
تیسری شرط مالک بنانا: مستحق کو مالک بنانا بھی ضروری ہے بغیر اسے مالک بنائے زکوۃ کی تکمیل نہیں ہوگی
زکوٰۃ دینے والوں کو زکوٰۃ دینے سے قبل اچھی طرح تحقیق کرلینی چاہیے کہ کیایہ شخص واقعی زکوٰۃ کا مستحق ہے؟ یا جس ادارہ میں دے رہا ہے ان کے یہاں زکوٰۃ کے مصارف ہیں یا نہیں ؟ اگر کسی وجہ سے خود تحقیق نہ کرسکے تو اپنے معتبر شخص کی تحقیق پر اعتماد کرتے ہوئے زکوۃ دے سکتا ہے بہتر تو یہی ہے کہ خود تحقیق کرکے اطمینان حاصل کرے اس لئے کہ اگر بلا تحقیق زکوٰۃ دے دی حالاںکہ وہ شخص یا ادارہ زکوٰۃ کا مستحق نہیں ہے تو زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی زکوۃ کی ادائیگی کے تعلق سے بہت ساری کمیاں پائی جاتی ہیں ایک تو یہی کہ جس کو دے رہا ہے اس کے بارے میں کوئی تحقیق نہیں ہوتی دوسرے زکوۃ کے نام پر کچھ رقم نکال کے لوگ مطمئن ہوجاتے ہیں خصوصا اہل تجارت جبکہ مال تجارت کے ایک ایک پائی کی زکوۃ موجودہ قیمت کے اعتبار سے لازم آتی ہے مال تجارت میں وہ زمینیں بھی شامل ہونگی جو بغرض تجارت خریدی گئی ہیں تیسرے ادھار دیئے گئے مال یا رقم کی زکوۃ اس میں بھی کافی کوتاہی ہوتی ہے جبکہ ادھار مال یا رقم پر بھی زکوۃ ادھار دینے والے کے ذمہ لازم آتی ہے
ایک اور اہم چیز جس کی طرف توجہ دینا انتہائی ضروری ہےوہ یہ کہ آج کل عام طور سے یہ مزاج بنا ہوا ہے کہ مال وثروت رکھنے والے احباب ملی اور رفاہی کاموں میں تو بڑھ چڑھ کرحصہ لیتے ہیں ،جو کہ ایک اچھا عمل ہے مگر اپنے ہی خاندانی فقراء و مساکین اور قریبی رشتہ داروں کی خبرگیری نہیں کرتے،جب کہ تعاون و امداد کے اولین حق دار یہی لوگ ہیں اللہ رب العزت کا فرمان ہے
اِنَّ اللّٰہَ یَاۡمُرُ بِالۡعَدۡلِ وَ الۡاِحۡسَانِ وَ اِیۡتَآیِٔ ذِی الۡقُرۡبٰی....بے شک اللہ تعالی عدل کا، بھلائی کا اور قرابت داروں کو دینے کاحکم دیتا ہے۔(النحل۹۰)آیت کریمہ سے صاف پتہ چلتاہے کہ رشتے داروں اور قریبیوں کے ساتھ امداد وتعاون کا معاملہ کرنا ان پراحسان نہیں ہے بلکہ یہ وہ حق ہے جو اللہ تعالی نے صاحب حیثیت افراد پر ان کے رشتے داروں کے سلسلے میں عائد کیا ہے اس تعلق سے عام طور پر کوتاہی پائی جاتی ہے اکثرلوگ یاتو رشتے داروں کا بالکل تعاون نہیں کرتے یا رشتے داروں کا حق ادا کرکے ان پر اس قدر احسان جتاتے ہیں اور ان کی عزت نفس کو اتنا مجروح کرتے ہیں کہ الامان والحفیظ حالانکہ وہ اپنے اس عمل سے جہاں اپنی نیکیاں برباد کرتے ہیں وہیں اپنے عزیز کو اس بات پر مجبور کرتے ہیں کہ ہزاروں ضرورتوں اور پریشانیوں کے باوجود وہ اپنے ہر صاحب حیثیت رشتے دار کا مالی تعاون لینے سے گریز کرنے لگتا ہے یہ کس قدر افسوس اور اصول سے ہٹی بات ہے کہ ایک ہی خاندان کے بعض افراد پرسکون اور پر آسائش زندگی بسر کریں اور اسی خاندان کے کچھ لوگ غربت و افلاس کے مارے روٹی، کپڑا اور مکان کو ترسیں
لہذا اولی ہیکہ سب سے پہلے رشتہ داروں میں سے جو حاجت مند اور مستحق زکوٰۃ ہوں انھیں زکوٰۃ دیں اس لئے کہ ان کو دینے میں دوہرا اجر ملتاہے، ایک تو زکوٰۃ کا دوسرے صلہ رحمی کا "لہما اجران اجر القرابۃ و اجر الصدقۃ‘‘ (بخاری و مسلم)
احادیث شریفہ میں اس مفہوم کی بہت ساری دیگر روایتیں نبی اکرم ﷺ سے منقول ہیں ترمذی شریف کی روایت ہے "اَلصَّدَقَۃُ عَلَی الْمِسْکِینَ صَدَقَۃٌ، وَ ہِيَ عَلٰی ذِی الرَّحِمِ ثِنْتَانِ، صَدَقَۃٌ وَّصِلَۃٌ"
’’مسکین کو صدقہ دینا ایک صدقہ ہے۔ لیکن رشتہ دار کو دینا ڈبل، ایک صدقہ، دوسرا صلہ رحمی
یہ تو ان افراد کی بات تھی جو کمی زیادتی کے ساتھ زکوۃ کی ادائیگی کرتے ہیں امت کا ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو زکوۃ کی فرضیت کے باوجود اس کی ادائیگی سے راہ فرار اختیار کرتا ہے انہیں لگتا ہیکہ زکوۃ کی ادائیگی ان کے مال میں کمی کا باعث بن سکتی ہے حالانکہ قرآن کریم میں رب جلیل کا واضح پیغام موجود ہے وَ مَاۤ اَنۡفَقۡتُمۡ مِّنۡ شَیۡءٍ فَہُوَ یُخۡلِفُہٗ ۚ وَ ہُوَ خَیۡرُ الرّٰزِقِیۡنَ ﴿سورۃ السبا﴾
اور جو چیز تم (مواقع حکم الہیٰ میں) خرچ کرو گے سو وہ (یعنی الله تعالیٰ) اسکا عوض دے گا اور وہ سب سے بہتر روزی دینے والا ہے۔
جو لوگ مال کو جمع کرکے رکھتے ہیں اسے احکام شریعت کے موافق خرچ نہیں کرتے اور اس میں شرعی حقوق کی ادائیگی سے چشم پوشی کرتے ہیں ان کے لئے قرآن کریم میں سخت سزاء کا اعلان ہے ارشاد باری ہے۔ جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرکے رکھتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے (اے نبی) انہیں آپ دردناک عذاب کی خوشخبری دے دیجئے، جس دن اس سونے اور چاندی کو جہنم کی آگ میں تپایا جائے گا پھر اس سے ان کی پیشانیوں ، پہلوؤں اور پشتوں کو داغا جائے گا (اور کہا جائے گا) یہ ہے وہ خزانہ جو تم نے اپنے لئے جمع کر رکھا تھا لہذا اب اپنی جمع شدہ دولت کا مزا چکھو(سورۃ التوبۃ)
ترمذی شریف میں آتا ہیکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا"جو شخص اپنے مال کی زکوۃ اداء نہیں کرتا ہے اللہ تعالی قیامت کے دن گنجا سانپ بنا کر اس کی گردن میں ڈال دیگا مَا مِنْ أَحَدٍ لاَ يُؤَدِّي زَكَاةَ مَالِهِ إِلاَّ جَعَلَ اللہُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِی عُنُقِہِ شُجَاعًا
زکوۃ نا دینے کا ایک بہت بڑا نقصان یہ بھی ہیکہ وہ حلال مال میں مل کر اسے حرام و ہلاک کردیتا ہے "فَیُھلِکُ الحَرَامُ الحَلَالَ"(مسند شافعی)
زکوۃ کا ایک بڑا اور حقیقی مقصد تزکیہ نفس یعنی زکوٰۃ دہندہ کے دل کو دنیا کی حرص و ہوس سے پاک کرنا ہے اور تقویٰ والے کاموں کے لئے تیار کرنا ہے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے: وَسَیُجَنَّبُهَا الْاَتْقَی الَّذِیْ یُؤْتِیْ مَالَهٗ یَتَزَکّٰی.
’’اور اس (آگ) سے اس بڑے پرہیز گار شخص کو بچا لیا جائے گا۔ جو اپنا مال (الله کی راہ میں) دیتا ہے کہ (اپنے جان و مال کی) پاکیزگی حاصل کرے‘‘۔
(سورۃ الیل)
الغرض ہر صاحب نصاب کی ذمہ داری ہے کہ وہ طمانینت قلب کے ساتھ زکوۃ کی ادائیگی کو یقینی بنائے ہر قسم کے ٹال مٹول سے بچتے ہوئے اپنے مستحق رشتے داروں سے تعاون کا آغاز کرے اور اپنا اچھا مال ہر قسم کی شہرت و ریاکاری سے بچتے ہوئے راہ خدامیں صرف کرنے کا جذبہ پیدا کرے رب کریم اپنی اس عطاء کردہ نعمت کو اپنی مرضیات کیلئے قبول فرمائے...آمین