یا حیرت!!!!!!!!!

 🍁🍁🍁




یاحیرت ! ــــــــ یاحیرت !



”علماءِ صادقین اور صالحینِ امت ہمیشہ شہرت سے بھاگتے تھے، اور اس کے اسباب سے دور رہتے تھے۔ گمنامی پسند کرتے تھے، اور اس کے اسباب تلاش کرتے تھے۔ 

انہی میں سے کسی نے کہا ہے : 

"شہرت چاہنے والا متقی نہیں ہوتا۔" 


ایوب سختیانی فرماتے تھے : 

"سچا وہ ہے جسے پسند ہو کہ کوئی اس کے ٹھکانے کو نہ جانتا ہو۔" 

بصرہ میں جب آپ پہچانے جانے لگے تو آپ نے بازاروں اور مصروف شاہراہوں کو چھوڑ دیا، اور ویران راستے ڈھونڈا کرتے۔ 


جب سفیان ثوری مشہور ہوئے تو ایک روز فرمانے لگے : 

"کاش میرا ہاتھ بغل سے جدا کر دیا جاتا، کہ میرا چرچا ہوتا نہ جان پہچان۔" 


امام احمد بھی جب شہرت سے دو چار ہوئے تو غمگین رہنے لگے، زیادہ وقت گھر میں رہا کرتے، جنازوں پر بھی کم جاتے کہ لوگ جمع نہ ہو جائیں۔ 

اور فرماتے : 

"بڑی خوش بختی ہے اس کی جسے اللہ نے گمنام کر دیا ہو۔" 

اور فرماتے : 

"اگر میں بغداد چھوڑ سکتا تو چھوڑ دیتا، کسی بادشاہ کو میرا پتہ نہ ہوتا۔" 

رشتہ داروں کو ساتھ نہ چلنے دیتے کہ وہ لوگوں کو تعارف کروا دیتے تھے۔ بلکہ کسی کو بھی ساتھ یا پیچھے نہ چلنے دیتے۔ اگر کوئی پیچھے چلتا تو رک جاتے جب تک وہ واپس نہ ہو جاتا۔ 


جناب عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اپنے پیچھے آنے والوں سے کہتے : 

"اگر تمہیں معلوم ہو کہ میرا اس چار دیواری کے اندر کیا حال ہے تو تم میں سے کوئی میرے پیچھے نہ آئے۔" 


سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کچھ لوگوں کو کسی کے پیچھے چلتے دیکھا تو کوڑے لگائے اور فرمایا : 

"احمق کے پیچھے پاؤوں کی چاپ اس کا دین تباہ کر دیتی ہے۔


" کچھ لوگ معروف کرخی کے ساتھ چلتے ہوئے ان کے گھر داخل ہو گئے۔ 

معروف کہنے لگے : 

"ہمیں اس انداز سے بچنا چاہیے۔ 

کیا روایات میں نہیں آیا کہ یہ چلنے والے کیلیے ذلت اور جس کیلیے چلا جائے، اس کیلیے فتنہ ہے!" 


ایک محدث مجلسِ حدیث سے اٹھے تو دیگر کچھ لوگ بھی ان کے پیچھے ہو لیے۔ انہیں یہ بات بھلی لگی۔ 

رات انہوں نے خواب میں ایک شخص کو کہتے ہوئے دیکھا : 

"کل معلوم ہو جائے گا کہ کس کس کو اپنے پیچھے لوگوں کا چلنا بھاتا تھا!" 


ایک شخص نے سفیان کو خواب میں دیکھا تو پوچھا کیا بنا ؟ 

بتایا : خلاصی ہو گئی۔ 

پوچھا، کوئی ناگوار بات بھی پیش آئی ؟ 

فرمایا : "ہاں۔ 

یہ سفیان ہیں یہ سفیان ہیں کے اشارے۔" 

کسی شخص کی طرف انگلیوں سے اشارہ کیا جانا اس کیلیے فتنہ ہے، نیکی میں ہو یا برائی میں۔ 


آثار میں آتا ہے : 

"آدمی کی برائی کیلیے یہی کافی ہے کہ اس کی طرف اشارے کیے جائیں، دین میں ہوں یا دنیا میں، مگر جسے اللہ بچا لے۔" 


بعض تابعین کے پاس جب چوتھا بندہ بیٹھتا تو شہرت کے خوف سے اٹھ کھڑے ہوتے۔ 


علقمہ اپنے گھر میں ہی رہا کرتے تھے، کسی نے کہا : آپ نکلتے کیوں نہیں، تاکہ لوگوں کو حدیث بیان کریں ؟ 

فرمایا : "مجھے لوگوں کا اپنے پیچھے آنا برا لگتا ہے کہ وہ کہیں یہ علقمہ ہے، یہ علقمہ ہے۔" 

(مجموع رسائل ابن رجب : ٧٥٥/٢)





Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.