ختم قرآن کریم کا مسنون طریقہ اور نیا رسم و رواج
ازقلم:-(مولانا)امتیازاقبال مدیرنویدشمس
قرآن کریم کے ختم کرنے کا طریقہ حدیث شریف میں منقول ہے،اور فقھاء نے اسکی صراحت کی ہے کہ یہ طریقہ نماز اور غیر نماز ،دونوں حالتوں میں یکساں ہے ، چنانچہ رئیس المفتیین حضرت اقدس مفتی احمد صاحب خانپوری دامت برکاتہم العالیہ ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں۔۔۔۔
"جوآدمی نماز میں پورا قرآن ختم کرے وہ معوذتین یعنی سورہ فلق اور سورہ ناس ایک رکعت میں پڑھ چکے تو دوسری رکعت میں الحمد کے بعد سورہ بقرہ کا ابتدائی حصہ الم سے ھم المفلحون تک پڑھے اس لیے کہ حدیث شریف میں اسی طرح ختم کرنے کی خوبی وارد وارد ہوئی ہے-نماز کے باہر بھی یہی طریقہ ہے،دعائے ختم القرآن پڑھنا جائز ہے،(یعنی ضروری اورواجب نہیں) عمدۃ الفقہ۔۔۔"
مفتی عامر عثمانی صاحب نے ایک سوال کے جواب میں تحریر فرمایا کہ
" قرآن کریم ختم کرنے کا مسنون و مستحب طریقہ یہ ہے کہ آخری سورہ، سورۃ الناس پڑھنے بعد پھر بسم اللہ سے سورۃ فاتحہ اور سورۂ بقرہ کے شروع کی پانچ آیتیں مفلحون تک پڑھ لیں اس کے بعد دعا کرلیں ۔
حدیث شریف میں آتا ہے :
زرارہ بن اوفی بیان کرتے ہیں نبی اکرم ﷺ سے سوال کیا گیا کونسا عمل افضل ہے؟ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا رک کر روانہ ہوجانا۔ عرض کیا گیا یا رسول اللہ رک کر روانہ ہوجانا اس سے مراد کیا ہے؟ آپ نے فرمایا قرآن پڑھنے والا شروع سے لے کر آخر تک پڑھتا رہے پھر آخر سے شروع کی طرف چلاجاتا ہے جب بھی وہ رکتا ہے تو پھر شروع کردیتا ہے ۔
اسی طرح تراویح میں ختم قرآن کا مستحب طریقہ یہ ہے کہ انیسویں رکعت میں سورۂ فاتحہ اور معوذتین (سورہ فلق و سورہ ناس) پڑھیں اور بیسویں رکعت میں سورہ فاتحہ اور سورہ بقرہ کا کچھ حصہ (مفلحون تک) پڑھیں گے ۔"
کچھ سالوں سے یہ دیکھا جارہا ہے مدارس و مکاتب میں جب طلباء وطالبات ناظرہ یا حفظ قرآن کریم ختم کرتے ہیں تو اس مسنون طریقے کو اختیار کرنے کی بجائے سورہ ناس کے بعد دعائے ختم القرآن پڑھتے ہیں،اور رواج کچھ ایسا ہوگیا ہے کہ اس کو ضروری اور واجب سمجھ کر پڑھا جارہا ہے،بلکہ اب تو نت نئے انداز اس کے لیے اختیار کیے جارہے ہیں،کوئی کسی لہجے اور اندازقرات میں سبقت لے جانا چاہتا ہے اور کوئی کسی اور انداز سے اپنے ادارے کو نمایاں کرنے کی کوشش کررہا ہے،
جائزہ لیتے ہیں کہ دعائے ختم القرآن جو قرآن کریم کے آخر میں لکھی ہوئی ہے اس کی فن حدیث کے اعتبار سے کیا حیثیت ہے!!
شیخ طلحہ منیار المکی ثم سورتی حفظہ اللہ ورعاہ (تلمیذ شیخ عبدالفتاح ابو غدہ رح)تحریر فرماتے ہیں کہ"
ختم قرآن مجید کے وقت دعاؤں کا قبول ہونا متعدد روایات سے منقول ہے ، البتہ اس سلسلہ میں کوئی متعین دعا کے الفاظ حضور نبی کریم ﷺ سے ثابت نہیں ہیں ، لیکن بعض دعاؤں کی کتابوں میں دو دعائیں حضور ﷺ کی طرف منسوب ہیں ، اور یہ دونوں دعائیں ہمارے یہاں کے مطبوعہ قرآن شریف کے اخیر میں لکھی ہوئی ہوتی ہیں ،اور دعاؤں میں ان کے پڑھنے کا اہتمام اسی وجہ سے کیا جاتا ہے"،ان دونوں کی تخریج پیش خدمت ہے-
(١)اللہم آنس وحشتی فی قبری۔۔۔۔۔۔علامہ سیوطی رحمہ اللہ اسکو الزیادات علی الموضوعات میں لائے ہیں،اور فرماتے ہیں کہ سند میں احمدابن خالد جویباری پر وضع کی تہمت لگائی گئی ہے،اسی سند میں لیث ابن خالد اور سالم الخیاط ہیں یہ دونوں بھی متروک الروایت ہیں،نیز اس دعا کو بقیہ موضوع احادیث کی کتابوں میں بھی ذکر کیا گیا ہے،جیسے "تنزیہ الشریعہ۔۔(١/٢٩٩) الفوائد المجموعہ صفحہ۔۔٣١٠-
اس روایت کا حکم یہ ہے کہ یہ موضوع ہے-
(٢/دوسری دعا ): ( اللهمَّ ارْحَمْنِي بِالْقُرْآنِ وَاجْعَلْهُ لِي إِمَامًا وَنُورًا وَهُدًى وَرَحْمَةً، اللهمَّ ذَكِّرْنِي مِنْهُ مَا نُسِّيتُ وَعَلِّمْنِي مِنْهُ مَا جَهِلْتُ وَارْزُقْنِي تِلَاوَتَهُ آنَاءَ اللَّيْلِ وَأَطْرَافَ النَّهَارِ وَاجْعَلْهُ لِي حُجَّةً يَا رَبَّ الْعَالَمِينَ ) . معضل ہے ، یعنی داود بن قیس کے بعد دو واسطے ساقط ہیں کیونکہ وہ تبع التابعین میں سے ہیں، تو حدیث متصل نہیں ، اور حضور ﷺ سے بھی اس طرح ثابت نہیں ہے ، نیز اس دعا کی صرف یہی ایک سند ہے ۔
قال الشيخ بكر أبو زيد في رسالته " مرويات ختم القرآن " ص256- 257 :
ذكره الغزالي في " الإحياء "(1/278) ، وأورده السبكي في " الطبقات " (6/286) ضمن الأحاديث التي لم يجد لها إسنادا ، وعزاه الزركشي في " البرهان " (1/475) إلى البيهقي في " دلائل النبوة " ولم أره في المطبوع ، وذكره الغافقي في "فضائل القرآن" ولم يذكر مخرّجه كعادته .
تنبيه :
اس روایت کے عدم اعتبار کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اس کو متاخرمصنفین نے ذکر کیا ہے ، مظفر بن حسین ارجانی اور ابن الضحاک یہ دونوں پانچویں اور چھٹی صدی ہجری میں تھے ، متقدمین کی کتابوں میں یہ دعا وارد نہیں ہے ۔
تنبیہ آخر :
ابن الضحاک صاحب کتاب ( الشمائل ) کی کنیت : ابو الحسن ہے ، ابوبکر نہیں ، ان کا نام ہے : علی بن ابراهيم بن عبد الرحمن بن الضحاك الفزاری ، ابو الحسن النفزی الغرناطی الاندلسی ، محدث فقیہ متکلم ہیں ،متوفی سنہ 755 ھ ۔ اور ان کی شمائل کی کتاب کا نام ہے «زواهر الأنوار، وبواهر ذوي البصائر والاستبصار، في شمائل النبيّ المختار» دو جلدوں میں ہے،صاحب (سبل الہدی) نے کثرت سے ان کی کتاب کی طرف رجوع کیا ہے ، اور عموما ان کی روایات میں غرابت تفرد اور ان کی روایات میں غرابت تفرد اور نکارت پائی جاتی ہے ۔
خلاصہ :
ختم قرآن مجید کے وقت ان دعاؤں کو بحیثیت دعا کے پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے ، بزرگان دین کا تعامل بھی رہا ہے ، لیکن حدیث کی حیثیت سے ان کی نسبت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنا درست نہیں ہے ، کیونکہ اسانید غیر معتبر ہیں ۔"
یہ شیخ طلحہ منیار صاحب کا کلام تھا جو ختم ہوا،اس کا خاصہ یہ ہے کہ دعائے ختم القرآن کے نام سے جو دعا ختم کے فورا بعد پڑھی جاتی ہے ان میں سے ایک دعا موضوع اور من گھڑت ہے اور دوسری معضل ہے جس کی بناء پر ان دعاؤں کو نبی پاک صلی علیہ اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرکے مسنون نہیں کہہ سکتے-
دوسری طرف سورہ ناس کے بعد دوبارہ قرآن کریم شروع کرنے والا طریقہ صحیح احادیث سے محقق طور پر ثابت ہے،چندسال پہلے تک مدارس و مکاتب میں ختم قرآن کے موقع پر یہی طریقہ رائج تھا اور تراویح میں اب بھی یہی مسنون طریقہ اختیار کیا جاتا ہے،بندہ کے ناقص خیال میں ختم القرآن کی مجالس میں دعائے ختم القرآن پڑھنے کا رواج حرم شریف کے امام صاحب کی نقل میں ہوا ہے،اسی وجہ سے دعا ختم القرآن پڑھنے وہی انداز اختیار کیا جاتاہے-
مسنون طریقہ پر ختم قرآن کی بجائے دعائے ختم القرآن پڑھنے میں اور بھی قباحتیں ہیں جن میں سب سے اہم یہ ہے کہ کہیں آگے چل یہ بدعت کی شکل اختیار کرلے،اور قرآن کریم کا ایک جزو اور حصہ سمجھا جانے
لگے،ویسے تو ابھی بھی بہت ہی اہم اور ضروری سمجھ کر پڑھا جاتا ہے،اور نہ پڑھنے والے پر سوال کھڑے کیے جارہے ہیں!!یاللعجب۔۔۔!
بہتر یہی ہے کہ ختم قرآن کی مجالس میں دعائے ختم القرآن کو ترک کردیاجائے ،اس لیے کہ کوئی نا کوئی شخصیت دعا کے لیے مدعو کی جاتی ہے،اسی سے دعا کروائی جائے،اگر طلبہ سے کروانا ہوتو جس نے ختم کیا ہے اس طالب علم یا طالبہ سے دعا نا پڑھوائی جائزے بلکہ اس کے علاوہ دوسرے طالب علم یا طالبہ سے پڑھا یا جائے،نیز پہلے مسنون طریقہ پر ختم کرکے پھر دعا ختم القرآن پڑھائی جائے-
اس رسم سےمتعلق متعدد اکابر و مشائخ تشویش کا اظہار کرچکے ہیں،قوی امید ہے کہ مدارس و مکاتب کے ذمہ داران اس طرف توجہ دیں گے اور یہ نہیں دیکھیں گے کہ لکھنے والا کون ہے،بلکہ یہ دیکھیں گے کہ کیا لکھا گیا ہے-