انڈیا میں بنارس کی ایک عدالت نے گیان واپی مسجد کے تہہ خانے میں ہندوؤں کو پوجا کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ اس حکم کے مطابق ہندو مسجد کے تہہ خانے میں پوجا کر سکیں گے۔
بعض ہندوؤں نے مقامی عدالت میں پٹیشن دائر کی تھی جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ مسجد ایک قدیم مندر کو توڑ کر بنائی گئی تھی اس لیے مسجد کی جگہ مندر کو بحال کیا جائے۔
ضلع جج اے کے وشویش نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ ’بنارس (وارانسی ) کے ضلع مجسٹریٹ کو ہدایت کی جاتی ہے کہ یہ پوجا تہہ خانے میں کاشی وشوناتھ ٹرسٹ اور عرضی گزار کے ذریعے نامزد کیے گئے ایک پجاری کے ذریعے کی جائے ۔۔۔ اس کے لیے ایک ہفتے کے اندر لوہے کی بیریکیڈنگ وغیرہ کا انتظام پورا کیا جائے۔‘
بنارس کی مقامی عدالت نے اپنے فیصلے میں ضلع انتظامیہ کو ہدایت کی ہے کہ وہ ایک ہفتہ کے اندر مسجد کے جنوبی تہہ خانے میں ہندوؤں کی پوجا کے لیے ضروری انتظامات کرے۔ یہ انتظامات ہوتے ہی پوجا شروع کی جا سکے گی۔
اس سے قبل ضلع عدالت نے 24 جنوری کو مسجد کے جنوبی تہہ خانے کو اپنی تحویل میں لینے کا حکم دیا تھا۔ عدالت نے اس کیس کی سماعت کے دوران بنارس کے ضلع مجسٹریٹ کو اس تہہ خانے کا ریسیور مقرر کیا تھا۔
عدالت کے فیصلے کے بعد ہندو فریق کے وکیل وشنو شنکر جین نے کہا ’جس طرح جج کے ایم پانڈے نے 1986 میں ایودھیا کے رام مندر ( بابری مسجد ) کا تالا کھولنے کا حکم دیا تھا۔ میں آج کے اس حکم کو اسی تناظر میں دیکھتا ہوں۔یہ اس کیس کا ٹرننگ پوائنٹ ہے ۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’ کاشی وشو ناتھ ٹرسٹ یہ طے کرے گا کہ پوجا کیسے ہوگی۔ اسے بہتر طریقے سے معلوم ہے۔ ہمارا قانونی کام تھا جو ہم نے پورا کیا ۔ اب یہ ٹرسٹ پر ہے کہ وہ پوجا شروع کرنے کا اہتمام کرے۔ پجاریوں کو پوجا کے لیے بھکتوں وغیرہ کو ساتھ لے جانے کی اجازت ہو گی۔‘
لکھنؤ کے ایک مسلم مذہبی رہنما مولانا خالد رشید فرنگی محلی نے اپنے ردعمل میں کہا کہ ’گیان واپی مسجد سیکڑوں برس پہلے تعمیر کی گئی تھی اور اس میں نماز ادا کرنا مسلمانوں کا حق ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’مجھے پوری امید ہے کہ مسجد انتظامیہ کے ذمے داران اس فیصلے کے خلاف اعلیٰ عدالتوں میں جائیں گے۔ ہمیں اعتماد ہے کہ مسلمانوں کو انصاف ملے گا ۔‘
گیان واپی مسجد کا تنازع کیا ہے؟
گیان واپی مسجد کی انتظامیہ کمیٹی اور اتر پردیش کے سنی وقف بورڈ نے عدالت عالیہ میں ذیلی عدالت کے فیصلے کے خلاف درخوات دائر کی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ 1991 کے عبادت گاہوں کے تحفظ ایکٹ کے تحت کسی عبادت گاہ کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا، اس لیے وہ مسجد کے سروے کے فیصلے کو مسترد کر دے۔
لیکن عدالت نے مسلم فریقوں کی دلیل یہ کہہ کر مسترد کر دی کہ 1991 کا قانون کسی عبادت گاہ کی ’مذہبی نوعیت‘ کی تشریح نہیں کرتا اور اس میں صرف عبادتگاہ کی ’تبدیلی‘ اور ’عبادت گاہ کے مقام‘ کی تشریح کی گئی ہے۔
عدالت عالیہ کے مطابق ’متنازعہ عبادت گاہ کی مذہبی نوعیت کا تعین متعلقہ عدالت کی جانب سے صرف اس عمل میں فراہم کیے گئے ثبوتوں کی بنیاد پر ہی کیا جا سکتا ہے۔‘
جس وقت ایودھیا میں رام جنم بھومی کی تحریک اپنے عروج پر تھی اس وقت ایک مرحلے پر یہ محسوس ہونے لگا تھا کہ ایودھیا کی بابری مسجد کو بچا پانا مشکل ہو گا۔
اس وقت تحریک کی دو اہم ہندو تنظیمیں وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل صرف ایودھیا کی بابری مسجد ہی نہیں بنارس کی گیان واپی مسجد اور متھرا کی شاہی عیدگاہ بھی ہندوؤں کے حوالے کرنے کا مطالبہ کر رہی تھیں۔
ان کا کہنا تھا کہ مسلم حکمرانوں نے اپنے دور سلطنت میںہزارو مندر توڑے ہیں
گیان واپی مسجد’تین ہزار عبادت گاہوں‘ کا مطالبہ کریں گی۔
ہندو تنظیموں کی فہرست میں جو مسلم عمارتیں اور عبادت گاہیں ہیں، ان میں دلی کا لال قلع، قطب مینار، پرانا قلعہ، جامع مسجد اور آگرہ کا تاج محل بھی شامل ہیں
انڈیا میں مذہبی عبادتگاہ کے تحفظ کا قانون کیوں بے اثر ہوا؟ گیان واپی مسجد
بابری مسجد طرز کے مزید تنازعوں سے ملک کو بچانے کے لیے اس وقت کی کانگریس حکومت نے 1991 میں مذہبی عبادت گاہوں کے تحفظ کا ایک قانون پارلیمنٹ میں منظور کیا۔
اس قانون میں کہا گیا کہ 15 اگست 1947 کو ملک کی آزادی کے وقت جو عبادت گاہ جس مذہب کی تھی۔ اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی جا سکتی اور نہ ان پر کوئی تنازع کھڑا کیا جا سکتا ہے۔
صرف بابری مسجد کو اس قانون سے الگ رکھا گیا تھا کیونکہ یہ تنازع عدالت عالیہ میں تھا اور یہ کہا گيا کہ اس کا فیصلہ عدالت سے ہی ہوگا۔
یہ امید کی گئی تھی کہ اس قانون کے بعد مستقبل میں بابری مسجد- رام مندر طرز کا کوئی نیا تنازع جنم نہیں لے گا۔
لیکن سال پہلے بعض ہندو کارکنوں نے گیان واپی مسجد پر دعویٰ کرتے ہوئے اس میں پوجا کرنے کی اجازت مانگی۔
ان کا کہنا تھا کہ مسجد کے صحن میں واقع وضو خانے میں بنا ہوا پتھر کا فوارہ دراصل ’شیو لنگ‘ یعنی شیو دیوتا کی علامت ہے۔
عدالت نے وضو خانے کو سیل کرنے کا حکم دیا۔ عدالت نے مسجد کی مذہبی نوعیت کے تعین کے لیے آثار قدیمہ کے ماہرین سے اس کا سروے کا حکم صادر کیا۔
ماہرین نے اپنی رپورٹ گذشتہ دنوں عدالت کو پیش کر دی ہے۔ اسی مدت میں متھرا کی عید گاہ کے خلاف بھی کئی درخواستیں عدات میں داخل کی گئی ہیں۔ متھرا کی ایک ذیلی عدالت نے گذشتہ ماہ عیدگاہ کا بھی سروے کرانے کا حکم دیا ہے۔