13 دسمبر 2023ہم نے اُسے گرفتار کر لیا ہے۔۔۔ یہ عراق کی تاریخ کا ایک عظیم دن ہے
عراق میں امریکی منتظم پال بریمر نے جب 13 دسمبر 2003 کو سابق عراقی صدر صدام حسین کی گرفتاری کا ایک پریس کانفرنس میں اعلان کیا تو وہاں موجود بظاہر ملکی اور غیر ملکی نامہ نگاروں نے تالیاں بجانا شروع کر دیں اور بعض نے اس خلافِ روایت طرزِ عمل کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے اٹھ کر نعرے بھی لگائے۔
صدام حسین کی گرفتاری ایک خفیہ اطلاع کی بنیاد پر ممکن ہو پائی تھی۔ یہ خفیہ اطلاع امریکی فوجیوں کو صدام کے آبائی شہر تکریت کے قریب واقع ایک کھیت میں زیر زمین خفیہ گڑھے تک لے گئی جہاں صدام حسین روپوش تھے۔
صدام حسین کو گرفتار کرنے والی چھاپہ مار ٹیم کی قیادت کرنے والے امریکی کرنل جیمز ہکی کے مطابق فوجی اس زیر زمین سوراخ میں دستی بم پھینکنے ہی والے تھے جب سابق عراقی صدر اُس سے برآمد ہوئے اور سرینڈر کر دیا۔ وہ سنیچر کا دن تھا۔
امریکی فوج کو صدام حسین کے ٹھکانے سے متعلق خفیہ اطلاع اُس شخص سے موصول ہوئی تھی جسے سنیچر ہی کے روز مقامی وقت کے مطابق صبح پونے گیارہ بجے بغداد سے گرفتار کیا گیا تھا۔ یہ شخص ناصرف صدام حسین کا رشتہ دار تھا بلکہ ان کے انتہائی قریبی حلقوں میں بھی شامل تھا۔
صبح پونے گیارہ بجے موصول ہونے والی اس اطلاع کے بعد شام کا اندھیرا پھیلنے کا انتظار کیا گیا۔ اور جیسے ہی شام ڈھلی تو چھ بجے کے لگ بھگ اندھیرے کی آڑ میں امریکہ کی فورتھ انفنٹری ڈویژن کے تقریباً 600 فوجی صدام کے آبائی شہر تکریت کے قریب واقع قصبے ’الداور‘ کے قریب دو ممکنہ ٹھکانوں کی جانب بڑھنا شروع ہوئے۔
خفیہ اطلاع کی بنیاد پر یہ قیاس کیا گیا تھا کہ ان ہی دو ممکنہ ٹھکانوں میں سے ایک پر صدام حسین موجود ہو سکتے ہیں۔
یہ صدام حسین کو زندہ پکڑنے یا مارنے کا مشن تھا جس کے لیے بننے والی فوجیوں کی دو ٹیموں کو ’ولورائن ون‘ اور ’ولورائن ٹو‘ کا کوڈ نام دیا گیا تھا۔ ان دونوں چھاپہ مار ٹیموں نے بتائے گئے دونوں خفیہ مقامات پر رات آٹھ بجے بیک وقت چھاپے مارے۔ مگر ان دونوں مقامات سے انھیں صدام حسین نہ مل سکے۔
اس کے بعد انھوں نے اس پورے علاقے کو مکمل طور پر سیل کر دیا اور ایک وسیع علاقے میں تلاشی کا کام شروع کر دیا۔ تلاشی کے اسی کام کے دوران انھیں چار دیواری کے اندر ایک چھوٹا سا فارم کمپاؤنڈ نظر آیا جس میں ایک دھات کا ڈھانچہ موجود تھا جبکہ ایک مٹی کی جھونپڑی بھی۔
اس کمپاؤنڈ کی تلاشی لینے پر فوجیوں نے نام نہاد ’سپائڈر ہول‘ دریافت کیا جس کے دہانے کو اینٹوں اور گندگی پھیلا کر مخفی رکھنے کی کوشش کی گئی تھی۔ اس کے دہانے پر ایک گندا قالین بھی موجود تھا تاکہ لوگوں کی اس جانب توجہ نہ جائے۔
چھاپہ مار ٹیم کی سربراہی کرنے والے کرنل ہکی کے مطابق فوجیوں نے سوراخ میں جھانکا تو انھیں اندر ایک پرچھائی نظر آئی۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’(اس کے بعد) دو ہاتھ نمودار ہوئے۔ اندر موجود شخص واضح طور پر ہتھیار ڈالنا چاہتا تھا۔‘
فورتھ انفنٹری ڈویژن کے کمانڈر میجر جنرل رے اوڈیرنو کے بقول جب صدام حسین کو اس سوراخ سے رات دس بج پر 36 منٹ پر باہر نکالا گیا تو بظاہر وہ ’ماحول سے ناآشنا‘ اور ’پریشان‘ نظر آ رہے تھے۔
اگرچہ ان کے قبضے میں ایک پستول تھی مگر پھر بھی انھوں نے گرفتاری میں کوئی مزاحمت نہیں کی۔
فورتھ انفنٹری ڈویژن کے آپریشنز آفیسر میجر برائن ریڈ کے مطابق اس موقع پر صدام نے انگریزی میں بات کرتے ہوئے فوجیوں سے کہا ’میرا نام صدام حسین ہے۔ میں عراق کا صدر ہوں اور میں مذاکرات کرنا چاہتا ہوں۔‘
میجر برائن نے یاد کرتے ہوئے مزید بتایا کہ اس کے جواب میں امریکہ کی سپیشل فورسز نے کہا ’صدر بش کی جانب سے نیک خواہشات۔‘
دو دیگر افراد، جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ صدام حسین کے ساتھ موجود تھے، کو بھی پکڑ لیا گیا اور پوچھ گچھ کے لیے گرفتار کر لیا گیا۔
،تصویر کا کیپشن
زیر زمین گڑھے کا اندرونی منظر، جہاں ایک ایگزاسٹ فین بھی نصب ہے
سابق عراقی رہنما نے جس زیر زمین چیمبر میں خود کو چھپا رکھا تھا وہ چھ سے آٹھ فٹ گہرا یعنی زیر زمین تھا، جس میں ایک شخص کے لیٹنے کے لیے کافی جگہ تھی۔ اس میں ہوا کے گزرنے کے لیے راستہ بنایا گیا تھا جبکہ ایک ایگزاسٹ فین بھی وہاں نصب تھا۔
میجر جنرل اوڈیرنو کے مطابق جس چھوٹے سے فارم میں یہ گڑھا موجود تھا وہ بذات خود بہت چھوٹا سا تھا اور اس میں صرف دو چھوٹے جھونپڑی نما کمرے تھے۔
ان کے مطابق جھونپڑی نما کمروں میں سے ایک بیڈ روم تھا جس میں پہننے کے کپڑے ٹنگے ہوئے۔ ان کپڑوں میں نئی ٹی شرٹس اور جرابیں موجود تھیں جبکہ ساتھ ہی ایک مختصر سا باورچی خانہ تھا جس میں پانی کی سپلائی موجود تھی۔
میجر جنرل اوڈیرنو نے مزید بتایا کہ جب بھی اتحادی افواج عراق کے اس علاقے میں موجود ہوتیں تو صدام حسین اس فارم کے جھونپڑی نما کمروں سے نکل کر زیر زمین سوراخ میں پناہ لیتے تھے۔
یہ زیر زمین سوراخ دریائے دجلہ کے بہت قریب تھا اور یہاں سے صدام کے محلات میں سے چند محل بھی نظر آتے تھے۔
میجر جنرل اوڈیرنو کے مطابق ’میرے خیال میں یہ ستم ظریفی تھی کہ وہ اپنے بنائے ہوئے ان عظیم محلات میں موجود ہونے کے بجائے دریا کے پار زمین میں موجود ایک سوراخ میں تھے۔‘
’حتمی معلومات
اگرچہ اس علاقے کی پہلے بھی تلاشی لی جا چکی تھی، لیکن خصوصی امریکی افواج کبھی بھی اس جگہ سے صدام حسین کو ڈھونڈ نہیں پائیں کیونکہ خیال کیا جاتا تھا کہ روپوشی کے بعد وہ اکثر اور مختصر نوٹس پر اپنے ٹھکانے تبدیل کرتے رہتے تھے۔
لیکن جب ان کے خاندان کے ایک فرد کو پوچھ گچھ کے لیے بغداد سے گرفتار کیا گیا تو امریکہ کو اُن کے ٹھکانے کے بارے میں ’حتمی معلومات‘ موصول ہوئیں۔
میجر جنرل اوڈیرنو نے مزید کہا کہ صدام کے قبضے سے کوئی موبائل فون یا دیگر مواصلاتی آلات نہیں ملے تھے جو یہ ظاہر کرتے کہ وہ عراق میں امریکہ کے خلاف جاری مزاحمت کو مربوط کرنے کے لیے کوئی ’اخلاقی مدد‘ فراہم کر رہے تھے۔
عراق میں امریکی فوج کے اعلیٰ کمانڈ، لیفٹیننٹ جنرل ریکارڈو سانچیز نے گرفتاری کے بعد کہا تھا کہ ’صدام بات چیت کے رسیا اور تعاون کرنے والی شخصیت تھے۔‘ گرفتاری کے وقت انہیں کوئی چوٹ نہیں آئی اور ان کی صحت اچھی تھی۔
آخری کھیل
چھاپہ مار فوجیوں کو صدام کے علاوہ جو اشیا ملیں اس میں ساڑھے سات لاکھ امریکی ڈالر بھی تھے جو سو، سو ڈالر کے نوٹوں پر مشتمل تھے۔ دو اے کے 47 مشین گنیں اور دستاویزات کا ایک بریف کیس بھی وہاں سے ملا۔
کمپاؤنڈ کے قریب ایک سفید اور نارنجی رنگ کی ٹیکسی کھڑی تھی۔
جنرل سانچیز نے کہا کہ گرفتاری کے بعد سابق عراقی رہنما نامعلوم محفوظ مقام پر منتقل کر دیا گیا۔
اس کے بعد ایک نیوز کانفرنس میں ایک پراگندہ حالت اور داڑھی بڑھے ہوئے صدام حسین کی ایک ویڈیو ٹیپ جاری کی گئی جس میں امریکی ڈاکٹر صدام کا معائنہ کر رہے تھے۔
اس مشن کی کامیابی فقط رشتہ دار سے ملنے والی اطلاع نہیں تھی بلکہ صدام کے آبائی علاقے تکریت میں گذشتہ کئی مہینوں کے دوران انٹیلیجنس معلومات کو اکھٹا کیا جا رہا تھا۔
امریکی افواج نے موصول ہونے والی خفیہ معلومات، زیر حراست افراد سے پوچھ گچھ اور معلومات کے سخت تجزیے کی مدد سے صدام حسین کے ممکنہ ٹھکانوں کی تصاویر تیار کر رکھی تھیں۔
اور پھر گرفتاری کی صبح ملنے والی ’قابل عمل انٹیلیجنس‘ معلومات کی روشنی میں ایک مخصوص مقام کا پتہ چلا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق صدام حسین اپنے آبائی شہر تکریت کے قریب یہ سوچ کر چھپے ہوں گے کہ یہاں موجود ان کے حامی انھیں اتحادی افواج سے محفوظ رکھیں گے۔
لیکن یہ قیاس کیا جاتا ہے کہ امریکہ کی طرف سے صدام کی گرفتاری کی معلومات کے لیے پیش کردہ 25 ملین ڈالر کی انعامی رقم نے ان روایتی وفاداریوں کو کمزور کرنے اور صدام کی قسمت کو مہربند کرنے میں بخوبی اپنا کردار ادا کیا ہو گا۔
سنہ 2004 میں بی بی سی کے پینوراما پروگرام میں انکشاف کیا گیا تھا کہ صدام حسین کے اس خفیہ ٹھکانے کی اطلاع صدام کے محمد ابراہیم عمر نامی رشتہ دار نے فراہم کی تھی جو صدام کے بہت قریبی حلقوں میں شمار ہوتے تھے اور ایک موقع پر ان کے باڈی گارڈ بھی رہے تھے۔ انھیں اندرونی حلقوں میں ’موٹے شخص‘ (دی فیٹ مین) کے نام سے بھی جانا جاتا تھا۔ مگر چونکہ انھوں نے ٹھکانے کی اطلاع اپنی رضامندی کے بجائے فوج کی جانب سے تفتیش کے دوران دی تھی اس لیے وہ 25 ملین ڈالر کی انعامی رقم سے محروم رہے تھے۔
نوٹ: صدام حسین کی گرفتاری سے متعلق یہ رپورٹ بی بی سی کی سنہ 2003 اور سنہ 2004 میں شائع ہونے والی رپورٹس میں شائع ہونے والی تفصیلات کی مدد سے ترتیب دی گئی ہے۔